ہفتہ، 27 جنوری، 2024

اتوار، 15 اکتوبر، 2023

بیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ: اُردو سافٹ ویر

 بیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ 

 اُردو سافٹ ویر 

رحمت یوسف زئی

’ اُردو کا رسم الخط بہت پیچیدہ ہے ‘  

’ اُردو کی سب سے بڑی کمزوری اِس کا رسم الخط ہے ‘ 

’ اُردو والے جب تک اپنا رسم الخط نہیں بدلیں گے ، ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں ہو سکتے۔ 

یہ وہ جملے ہیں جو ۷ ۴ کے بعد ‚ آج تک متواتر سنے جاتے رہے ۔ خود اُردو کے بعض اہم دانشوروں نے رسم الخط بدلنے کے لیے تجاویز پیش کیں ۔ لیکن اُردو رسم الخط کے چاہنے والوں نے ایک نہ سنی، کیوں کہ رسم الخط در اصل زبان کا لباس ہے اور اگر لباس بدل جائے تو اس کی شناخت ختم ہونا لازمی تھا ۔ تبدیلی کے لیے دو تجاویز تھیں ۔ ایک تو یہ کہ رومن رسم الخط اختیار کیا جائے ۔ تاکہ عالمی سطح پر ترسیل میں آسانی ہو ۔ اس تجویز کی بنیاد اِس بات پر تھی کہ انگریزی حروف کے ٹائپ رائٹر ہر جگہ دستیاب تھے ۔ اِس رسم الخط کے ذریعے الکٹرانک میڈیا پرٹیلی گرام ، ٹیلی پرنٹر وغیرہ کے ذریعے پیامات کو آسانی سے بھیجا جا سکتا تھا ۔ 

ہندوستان کے تناظر میں دوسری تجویز یہ تھی کہ دیوناگری رسم الخط کو اختیار کرلیا جائے تاکہ ملک کے طول و عرض میں ہندی کے فروغ کے لیے جو کاوشیں ہو رہی ہیں ، اُن سے استفادہ کرتے ہوئے اُردو کی تحریروں کو بھی دوسری ہندوستانی زبان جاننے والوں تک پہنچانا ممکن ہو سکے ۔ یہ تجاویز خلوص پر مبنی ہوسکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی تھا کہ پھر زبان کی شناخت باقی نہ رہے گی اور سمندر میں قطرے کا اپنا وجود ختم ہو جائے گا ۔ چنانچہ اُردو والے اپنے رسم الخط پر اڑے رہے۔ تھک ہار کر اُردو ٹائپ کو فروغ دینے کی کوششیں ہوئیں۔ کافی کتابیں اِسی تحریر میں شائع ہوئیں ۔ پاکستان میں بھی ٹائپ کو اپنا نے کے لیے کافی محنت کی گئی اور وہاں کے دانشوروں کی متعدد کتابیں ٹائپ میں طبع ہوئیں ۔ ٹائپ میں ایک خرابی یہ تھی کہ ِاس تحریر کو روانی سے پڑھنا دشوار تھا کیوں کہ اُردو والوں کی آنکھیں نستعلیق کی عادی تھیں۔ دلچسپ بات  یہ ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد نے بھی الہلال کے کچھ شمارے ٹائپ میں طبع کئے ۔ منٹو کے بارے میں تو یہ سب ہی جانتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیاں راست ٹائپ رائٹر پر لکھا کرتے تھے ۔  ۶۰ء سے ۷۰ء تک کا بلکہ ۸۰ء تک کا دور اِس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اُس زمانے میں اُردو ٹائپ رائٹر ہندوستان اور پاکستان میں بہت زیادہ استعمال ہونے لگے تھے اور اُردو والے نہ چاہنے کے باوجود اِنھیں پڑھنے کے لیے مجبور تھے اور یہ عام طورپر سمجھا جانے لگا تھا کہ اب شایدنستعلیق کیلئے کوئی گنجائش نہیں رہی اورنستعلیق صرف ایک تزئینی خط کے طور پر رہ  جائے گا ۔

اِس ضمن میں سب سے اہم مثال ایران کی تھی جہاں نستعلیق ہی کا رواج تھا ۔ لیکن رضا شاہ پہلوی کے عہد میں ٹائپ کی سہولت سے استفادہ کرنے کی غرض سے نسخ کے ٹائپ رائٹرعام کئے گئے ۔ عرب میں چونکہ یہی رسم الخط رائج تھا ، اِس لیے اُن کو زیادہ آسانی تھی ، ٹائپ رائٹر بنانے والی بڑی کمپنیوں نے نسخ کے جو ٹائپ رائٹر تیار کئے تھے ان کی قیمت بھی انگریزی کے مقابلے میں بہت زیادہ نہ تھی۔ اس لیے بھی نسخ کے ٹائپ رائٹر مقبول ہوتے گئے۔جب ایران میں نسخ اختیار کر لیا گیا تو پھر وہاں نستعلیق کا رسم الخط آہستہ آہستہ داستان پارینہ بن گیا اور صرف لائیبریریوں کی زینت بنا رہا ۔ چنانچہ آج تک بھی وہاں نسخ ہی رائج ہے ۔ کہیں کہیں بڑے پوسٹروں اور بینروں پر نستعلیق نظرآجاتا ہے ۔ 

۸۰ ۹ ۱ ء کے آس پاس امریکہ کی مشہور کمپنی مائکرو سافٹ نے ’ ڈاس ‘  (Dos) ڈسک آپریٹنگ سسٹم پیش کیا تو کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب آگیا ۔ اِس سے قبل دنیا بھر میں تین چار پروگرامنگ کی اہم زبانیں رائج تھیں اور اُن کو مشینی زبان میں منتقل کر نے کے لیے کمپائیلرز Compilers  موجود تھے۔ڈاس کے مارکٹ میں آنے کے بعد  textیامتن کا کام زیادہ آسانی سے ہونے لگا ۔ پھر ورڈ اسٹار جیسے پیکیج منظر عام پرآئے اورکمپیوٹر عام زندگی میں داخل ہونے لگا۔ چھوٹے کمپیوٹر PC یعنی پرسنل کمپیوٹر اُس زمانے میں مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگے ۔ عرب ممالک کے لیے پٹروڈالر کی بدولت نسخ میں ڈاس تیار ہوا اور کمپیوٹر پر Text مرتب کرنے کا کام بھی کیا جانے لگا ۔ اِس میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو ورڈ اسٹارکے لیے مخصوص تھا یعنی ہر تبدیلی کے لیے علٰحدہ علٰحدہ کچھ خاص ہدایات دینی پڑتی تھیں ۔نستعلیق کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہر حرف کی شکل اُس کی نشست کے اعتبار سے بدل جاتی ہے ۔ اِس سے سطر کی موٹائی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اِس لیے نستعلیق کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ کمپیوٹر کے لیے تویہ رسم الخط بالکل ہی ناقابل قبول ہے۔ 

آٹھویں دہائی کے آخر میں یعنی ۹ ۷ کے لگ بھگ IBM  (انٹرنیشنل بزنس مشینز) نے لیرز ٹائپ سٹنگ پرنٹر پیش کیا ۔ اور اِس کے ساتھ ہی طباعت کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ۔ اِس طریقے میں یہ خوبی تھی کہ اُس میں پلاٹر کے ذریعے گرافکس کو بھی کمپیوٹرسے کا غذ پر منتقل کرنا اور میگنٹک میڈیا جیسے ٹیپ اور فلاپی پر محفوظ کرنا ممکن ہو گیا تھا ۔پاکستان کے ایک بہت بڑے   Printers Prestige کے مالک مرزا جمیل احمد نے جب اِس مشین کو دیکھا تو اُنھوں نے سوچا کہ نستعلیق میں طباعت کے لیے بھی اِس مشین کا استعمال ممکن ہے ۔ مرزا جمیل احمد  ۸۰ ۹ ۱ ء میں سنگاپور میں منعقد ہونے والی ایک طباعت کی نمائش میں شرکت کے لیے گئے جہاں یہ   مشین پیش کی گئی تھی ، جس میں گرافکس کے ذریعہ تیار کئے گئے نقش یا Image کو کمپیوٹر کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا تھا ۔ اُنھوں نے سوچا کہ اگر ایک  Data Base تیار کیا جائے تو کلیدی تختے Key Board پرحروف ٹائپ کرکے محفوظ شکلوں(Ligatures)میں سے متعلقہ شکل کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور اُسے اسکرین پر یا کاغذ پر منتقل کرنا ممکن ہے ۔ اِس طرح نستعلیق کو بھی کمپیوٹر پر لایا جاسکتا ہے ۔ مرزا جمیل احمد جب پاکستان واپس آئے تو اُنھوں ںے روزنامہ جنگ کے ذمہ داروں سے بات چیت کی ۔ اس زمانے میں جنگ لندن سے بھی شائع ہو رہا تھا اور اُن کے لیے لندن میں کتابت ایک اہم مسئلہ بن گئی تھی ۔ چنانچہ جنگ کے ذمہ داروں نے مرزا جمیل کے اس پراجکٹ کو Sponsor کیا ۔ ’جنگ ‘ کی مدد کی وجہ سے سرمایہ کی کوئی کمی نہ تھی اور خود جمیل صاحب بھی اِس موقف میں تھے کہ کافی روپیہ خرچ کر سکیں۔ اُنھوں نے مشہور اور ماہر فن کاتبوں کو اِس کام کے لیے مقرر کیا کہ وہ نستعلیق میں استعمال ہونے والی مختلف اشکال  (Ligatures) تیار کریں ۔ اور پھر چھ سات مہینوں کے اندر ہی مرزا جمیل نے ایک سسٹم تیار کر لیا اور جنگ کی طباعت کمپیوٹر کے ذریعے ہونے لگی ۔ مرزا جمیل کے والد کا نام مرزا نور احمد تھا اور اُن کے بزنس گروپ کا نام بھی النور تھا ۔ مرزا جمیل نے اپنے والد کے نام پر ہی اِس خط کا نام نوری نستعلیق رکھا ۔  ۸۲ ء تک سات آٹھ ایسے پبلشنگ ادارے وجود میں آگئے جن کے ہاں نوری نستعلیق کے ذریعے کتابت کا کام ہوتا تھا ۔ 

ہندوستان میں ۷ ۸ ۹ ۱ ء کے لگ بھگ یہاں کے ایک اخبار ہند سماچار نے بھی اِس طریقۂ کتابت کو اختیار کیا ۔ اُن کے لیے آسانی یہ تھی کہ اُن کے ہاں مونو ٹائپ سٹنگ مشین پہلے ہی سے موجود تھی اور وہ لیزر ٹائپ سے استفادہ کررہے تھے ۔ اُن کو صرف اُردو کے فونٹ یا حروف کی شکلیں درکار تھیں ، جو اُنھوں نے مرزا جمیل سے کسی توسط کے ذریعے حاصل کر لیں اور اِس طرح ہندسماچار ہندوستان کا پہلا اخبار بن گیا جہاں کمپیوٹر پر کتابت ہونے لگی ۔ 

نوری نستعلیق کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ ِاس میں طغرے کی سی خوبصورتی تھی۔  کیوں کہ مرزا جمیل نے اُس دور سے بہترین کاتبوں کو نقش سازی یا Ligature کی تیاری پر مامور کیا تھا ۔ البتہ اشکال کو  Monotype   والوں کی ہدایت کے مطابق اِس طرح تیار کیا گیا تھا کہ سطر کی موٹائی متاثر نہ ہو ۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ کمپیوٹر میں موجود اشکال ہی کے ذریعے کتابت ممکن تھی اور اگر کوئی نیا لفظ یا نئی شکل آجاتی تو یہاں نسخ کا سہارا لینا پڑتا تھا اور پھر بعد میں اُس کے Ligature تیار کر کے یاد داشت میں داخل کر لیے جاتے تھے ۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ حروف کے اختتام پر جو باریک سی نوک بن جاتی ہے، اُس کو بالکل اِسی طرح پیش کرنا ممکن نہ تھا بلکہ نوک قدرے جلی ہوجاتی تھی ۔ ویسے بھی اخبار کے لیے وقت کی قیمت ہوتی ہے ۔ صرف خوبصورتی اور نزاکتوں پر دھیان دیا جاتا تو وقت زیادہ خرچ ہونے کا امکان تھا ۔ اِس لیے نوری نستعلیق میں اِن نزاکتوں سے صرف نظر کیا گیا تھا ۔ 

ادھر حیدرآباد میں کافی عرصہ قبل یعنی سقوط حیدرآباد سے بہت پہلے نستعلیق کا کمپوزنگ نظام وجود میں آچکا تھا ۔ چنانچہ دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کی کئی کتابیں اِسی نظام کو استعمال کر کے شائع  کی گئیں ،جن کے نمونے آج بھی ملک کی کئی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن امتدادِ زمانہ نے کمپوزنگ نظام کے سارے ذخیرے کو اِس طرح ضائع کر دیا کہ اب اس نظام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ 

البتہ حیدرآباد کے ایک کاتب تھے جوریاست حیدرآباد کے سرکاری محکمہ طباعت میں کام کرتے تھے۔ اُن کا نام عبد القادرتھا ۔کہا جاتا ہے کہ وہی اِس کمپوزنگ  نظام کے خالق تھے ۔ اُنھوں نے اِس نظام کے تختے بنا رکھے تھے اور اُن تختوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔چونکہ اُنھوں نے اِس پر کافی محنت کی تھی اور یہ اُن کی زندگی کا حاصل تھا ، اِس لیے اُنھیں اِس بات کا خدشہ تھا کہ یہ تختے اگر کسی کے ہاتھ لگ جائیں تو پھراُنھیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اِس خیال کے تحت اُنھوں نے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ اگر کوئی اِن تختوں کو دیکھنا اور حاصل کرنا چاہے تو پہلے ایک لاکھ روپیہ ادا کرے تب وہ اپنے تختے دکھائیں گے ۔ دہلی کے مشہور رسالے ’ شمع ‘کے مدیر یونس دہلوی نے بھی کوشش کی کہ وہ ان تختوں کو دیکھیں اور اگر اُنھیں استعمال کیا جا سکتا ہو تو اُنھیں رقم بھی ادا کی جائے ۔ لیکن عبدالقادر صاحب مصر رہے کہ پہلے ایک لاکھ ردپیے دیئے جائیں اور کسی کی ہمت نہ پڑی کہ صرف عبد القادر صاحب کے کہنے پر رقم دے دی جائے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تختے یوں ہی پڑے رہے۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا اور اُس کے بعد یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ تختے کہاں ہیں اور کیا ہو ئے ۔ 

۴ ۸ ۔ ۳ ۸ ۹ ۱ ء میں حیدرآباد ہی کے ایک نوجوان جاوید نے نستعلیق طباعت کے اِس پراجکٹ پر کام شروع کیا ۔ یہ ایک عجیب و غریب شخصیت تھی۔ اُس کے بارے میں اُردو سافٹ ویر کے انجینیر اشہر فرحان نے بتایا کہ یہ نوجوان بے حد ذہین اور خلاقانہ صلاحیتوں کا حامل تھا ۔ وہ خود کاتب تھا ، مصوری کا ذوق رکھتا تھا ، سنگتراشی سے دلچسپی تھی ، مولڈنگ کا بھی شوق تھا ، بڑی بڑی گھڑیاں اور اُن کے پرزے وہ خود تیار کرتا تھا اور نہ جانے کیا کیا ۔ جاوید جب حیدرآباد کے ایک مشہور اور قدیم ادارے دائرۃ المعارف سے وابستہ ہوا تو اُس نے وہاں کام کرنے والے کچھ قدیم لوگوں سے مدد لے کر دارالطبع اوردائرۃ المعارف میں شائع ہونے والی کتابوں کا تجزیہ کیا اور اپنے طور پر نستعلیق کے جوڑ تیار کئے جن کی خصوصیت یہ تھی کہ حروف کی نشست کے اعتبار سے اُن میں ایک کیل کی شکل کا System   Locking تھا اور وہ مقررہ نشست پر ہی فٹ ہو سکتا تھا ۔ 

جاویدکویہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ کام کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے لیکن وہ خود کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھا ۔ چنانچہ اُس نے اپنی ضرورت کے لیے حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم Octal Computers  سے ربط پیدا کیا ، جس کے کرتا دھرتا دو نوجوان ایوب اور طارق تھے ۔ یہ دونوں کمپیوٹر انجینیر تھے اور اُن کی فرم بزنس پروگرامنگ کا کام کرتی تھی ۔ اُن کے سارے پروگرام Cobal   میں لکھے جاتے تھے جو بزنس اپلیکیشن کے لیے ایک عرصے تک کمپیوٹر کی بہت اہم زبان مانی جاتی رہی ہے۔ یہ دونوں گرافکس سے واقف ضرور تھے لیکن اُن کی دلچسپی پروگرامنگ میں زیادہ تھی ۔ اُن دونوں نے اشہرفرحان سے ربط پیدا کیا جو اُن کے جونیر طالب علم تھے اور اُس وقت انجنیرنگ کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ یہاں اشہر فرحان کے بارے میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ اُن کے والد پروفیسر انور معظم عثمانیہ میں اسلامیات کے صدر شعبہ تھے اوراب وظیفہ پرسبک دوش ہو چکے ہیں ۔ اشہر فرحان کی والدہ اُردو کی مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو ہیں ۔

گرافکس اشہر فرحان کا پسندیدہ موضوع تھا، جس سے ایوب اور طارق واقف تھے ۔ چنانچہ نستعلیق کا پراجکٹ شروع کیا گیا، جس کے ایک تہائی حصہ دار  اشہر فرحان تھے ، ایک تہائی حصہ جاوید کا اور ایک تہائی حصہ  Octal Computers کا تھا ۔ اِس طرح اُردوایڈیٹر پر کام شروع ہوا ۔ کام کچھ آگے بڑھا لیکن پھر ایوب اور طارق کی مصروفیات بڑھتی گئیں ، ایوب شیر بزنس اور اسٹاک مارکٹ میں داخل ہوئے اور آج کل وہ ایک اہم شیر بروکر ہیں ، طارق نے یورپ کی راہ لی اوراس طرح Octal کمپیوٹرز کی فرم بند ہوگئی اور بظاہرنستعلیق کا کام ٹھپ ہو گیا ۔ جاوید بھی Octal کے بند ہونے کی وجہ سے بد دل ہوگئے اور دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن فرحان نے اپنے طور پر فرصت کے اوقات میں اِس کام کو جاری رکھا۔ آہستہ آہستہ وہ کامیابی کی طرف بڑھتے رہے اور بڑی حد تک مشکلات پرقابو پا لیا لیکن پھر اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے وہ بھی زیادہ توجہ نہ دے پائے ۔ پھر اُن کے ہاں خود ان کا اپنا کمپیوٹر بھی نہ تھا ،اِس لیے اِس کام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔ 

جاویدنے جو چارٹ تیار کئے تھے وہ اُنھی کے پاس محفوظ تھے ۔ جاوید حیدرآباد کے مشہور روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان صاحب مرحوم سے ملے اور ان سے مدد کی درخواست کی ۔ عابد علی خان صاحب جاوید کو اپنے ساتھ دہلی لے گئے اور وسنت ساٹھے سے ملاقات کروائی جو اُس وقت مرکزی وزیر تھے ۔ وسنت ساٹھے نے حکومت کی طرف سے گرانٹ دلوانے کا وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کوشش بھی بار آور ثابت نہ ہو سکی ۔

جاوید کا مکان حیدرآباد کے ایک قدیم محلے حسینی علم میں تھا ۔ وہیں حیدرآباد کے ایک ادیب ،  دانشور اور محقق جناب تصدق حسین تاج رہتے تھے ۔ یہ وہی تصدق حسین تاج ہیں، جنھوں نے ’ مضامین اقبال ‘ مرتب کر کے حیدرآباد سے شائع کی تھی ۔ اُن کی پوتی پاکستان میں انعام علوی سے بیاہی گئی تھی ۔ انعام علوی شادی کے بعد ہنی مون پر حیدرآباد آئے ۔ اُن کا قیام حسینی علم میں تھا۔ وہ  ایک بڑی گھڑی خریدنا چاہتے تھے ۔ کسی نے اُن کو جاوید کے بارے میں بتایا ۔ انعام نے جاوید سے ملاقات کی ۔ جاوید نے باتوں باتوں میں نستعلیق کے پراجکٹ کے بارے میں بتایا ۔ انعام خود بھی کمپیوٹر پروگرامنگ کے ماہر تھے اور کویت میں بزنس ایپلیکشن کا کام کرتے تھے ۔ اُنھوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پراجکٹ کافی اہم ہے ۔ اُنھوں نے جاوید کو معتد بہ رقم دے کر وہ چارٹ حاصل کر لیے اور پاکستان واپس ہو گئے ۔ چونکہ انعام کا میدان بزنس اپلیکشن تھا ، اِس لیے گرافکس کا یہ کام اُن سے سنبھل نہ پایا ۔ لیکن وہ برابر تگ و دو میں رہے کہ اِس پراجکٹ کو کسی طرح آگے بڑھایا جائے ۔ اِسی دوران فرحان نے BE مکمل کر لیا اور حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم IDS میں کام کرنے لگے ۔اُنھیں پتہ نہیں تھا کہ جاوید نے وہ چارٹ انعام کے حوالے کر دیئے ہیں۔ IDS کے مالک ارون کمارفرحان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور فرحان اُن کو اپنا گرو مانتے تھے۔  فرحان نے ارون کمار سے مشورہ کیا اور اُن کی مدد حاصل کرنی چاہی لیکن ارون کمارنے صلاح دی کہ فرحان IDS کی ملازمت ترک کر کے خود اپنی ایک فرم قائم کریں اور اپنے بل بوتے پر اِس پراجکٹ کو آگے بڑھائیں ۔ چنانچہ فرحان نے تیرہ ہزار روپیہ میں ایک پرانا کمپیوٹر خریدا اور کمپیوٹر کارپوریشن کے نام سے ایک فرم قائم کر کے اپنے طور پر اِس کام کو آگے بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اُنھوں نے اُردوٹکسٹ ایڈیٹرکو مکمل کر لیا ۔ 

اُدھر انعام علوی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اِس پراجکٹ کو آگے بڑھائیں۔ جب اُنھیں یہ محسوس ہوا کہ ُانھیں مدد درکارہے تو اُنھوں نے جاویدکو پاکستان بلایا ۔جاوید پاکستان گئے لیکن وہ کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھے ، اِس لیے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی ۔ جاوید حیدرآباد واپس آگئے اور یہاں اُن کی ملاقات جب اشہرفرحان سے ہوئی تو فرحان نے بتایا کہ وہ اِس پروجکٹ کا ابتدائی کام مکمل کر چکے ہیں اور ٹکسٹ ایڈیٹر تیار ہو چکا ہے ۔ پھر فرحان نے اپنے کمپیوٹر پرجاوید کو نستعلیق میں کمپوز کر کے اسکرین پر اُس کا نمونہ بھی دکھایا ۔ جاوید نے بتایا کہ اُس نے اپنے چارٹ انعام علوی کو فروخت کر دیئے تھے ۔ بہر حال جاوید نے پھرانعام علوی سے ربط قائم کیا اور اُنھیں حیدرآباد آنے کی دعوت دی ۔ انعام حیدرآباد آئے ،  فرحان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ انعام کے ہاں بھی پیسے کی کمی نہ تھی۔ اُن کے ہاں پاکستان میں پلاٹر ، اسکینر  وغیرہ سب کچھ موجود تھے ۔ انعام نے فرحان سے خواہش کی کہ وہ اُن کے ساتھ پاکستان چلیں اور وہیں اپنا کام مکمل کریں ۔ فرحان پاکستان گئے ، وہاں کام کیا اور چند ہی مہینوں میں یہ کام پورا ہو گیا ۔ پھر فرحان ہندوستان واپس آگئے ۔ طے یہ پایا کہ پاکستان میں اس کی مارکٹنگ انعام کے ذمے ہوگی اور ہندوستان میں فرحان یہ کام سنبھالیں گے ۔ فرحان نے جولائی ۸ ۸ ء  میں اُردو کا پہلا سافٹ ویر پیش کیا ۔ یہ سافٹ ویر DOS پرمنحصرتھا، جس کا  افتتاح جناب عابد علی خان کے ہاتھوں عمل میں آیا اور جناب عابد علی خان نے اپنی افتتاحی تقریر میں اعلان کیا کہ ۵ ۱  اگست ۸ ۸ ء میں اُردو سے اخبار سیاست کمپیوٹر پر نکلے گا ۔ جس محفل میں یہ سافٹ ویر پیش کیا گیا اُس میں حیدرآباد کے کئی اہم کاتب اور کمپیوٹر سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب بھی موجود تھے ۔ کسی نے پسند کیا ، کسی نے اعتراض کیا ، کسی نے خامیوں کی نشاندہی کی بہر حال ’سیاست ‘ میں اِس نظام پر پہلی مرتبہ کام شروع ہوا۔  ابتدا میں چند سطروں پر مشتمل خبریں اور چھوٹے آرٹیکل کمپیوٹر کتابت کے ذریعے شائع ہوئے ۔ ۵ ۱ اگست ۸ ۸ ء سے دو کالم کی کتابت ہونے لگی اور آہستہ آہستہ  ایک دو ماہ  میں پورا اخبار کمپیوٹر پر شائع ہونے لگا ۔ اِس نظام کا نام UCS یعنی اُردو کمپیوٹر سسٹم رکھا گیا ۔ 

اشہر فرحان نے ایک شخصی ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ اِس سارے کام کا سہرا جاوید کے سر جاتا ہے جس نے نستعلیق کے جوڑ تیارکرنے کا بنیادی کام کیا ، پھرفرحان اور جاوید نے مل کر اُن جوڑوں کے گروپ بنائے ، مختلف سائزوں کے اعتبار سے الگ الگ گروپ بنائے گئے اورنظام یوں تیار ہوا کہ مخصوص حالتوں میں کچھ خاص قسم کے جوڑ ہی اِس طرح استعمال کیے جائیں تاکہ نستعلیق کی خوبصورتی متاثر نہ ہونے پائے ۔ اِس نظام میں ہر حرف اور اُس کے جزو کا نشست کے اعتبار سے علحدہ جوڑ تھا اور حروف اِس طرح پیوست ہوتے تھے کہ درمیان میں کسی طرح کا نشان نہ رہے ۔ اِبتدا میں جاوید نے اِس طریقے کو استعمال کر کے 150 جوڑ تیار کئے تھے ۔ جب فرحان نے اِن جوڑوں کو کمپیوٹر یاد داشت میں شامل کیا تو مزید جوڑ تیار ہوئے اور اُن کی تعداد211 ہو گئی ۔ پھر جہاں جہاں کمی یا خامی محسوس کی گئی وہاں نئے جوڑ تیار کر کے اُنھیں بھی شامل کیا جاتارہا  اور اب یہ تعداد 585 تک پہنچ چکی ہے ۔ فرحان نے مختلف قسم کے اُن جوڑوں کو 9  خاندانوں میں تقسیم کیا اور چار ہزار سے زیادہ قاعدے یا Rules بنائے ۔ Ligatures یا اشکال پر محیط نظام میں اور اِس base Charecter   یا حروف پر محیط نظام میں فرق یہ ہے کہ اِس میں ایم ایس ورڈ کی طرح ہر بارنئی فائل تیار ہوتی ہے ، جب کہ اشکالی نظام میں پہلے سے موجود شکلوں پر ہی انحصارکرناپڑتا ہے ۔ اِس نئے نظام میں کسی بھی نئے لفظ کو بڑی آسانی سے کمپوز کرنا اور سطر کی حد میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے ۔ 

ابتدا میں جب فرحان نے کام شروع کیا تو اُن کے ذہن میں پلاٹر کی ٹکنک تھی لیکن اگر اُس پر کام کیا جاتا تو وہ بہت صبر آزما ہوتا اوروقت بھی زیادہ خرچ ہوتا ۔ پلاٹر کے ذریعے اگر  اخبار کے ایک صفحے کی کتابت کی جاتی تو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ سکتا تھا  اور پھر اِس پروگرام کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی فلاپیاں Floppies درکار ہو سکتی تھیں ۔ جب کہ UCS یعنی اُردو کمپوزنگ سسٹم میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ، اُس میں جگہ اور یاد داشت بھی کم درکار تھی اور نستعلیق کے دائروں اور نوک کی خوبصورتی بھی موجود تھی ۔ اِس لیے یہ خط دوسرے Fonts کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب ہے ۔ جو Font یوسی ایس میں استعمال کیے گئے ، اُن کو ابتدا میں کوئی نام نہیں دیا گیا بلکہ 01  ، 02 ، 03  کی فائل بنادی گئی ۔ بعد میں مختلف فونٹ کے لیے مختلف نام دیئے گئے ۔ نستعلیق کے لیے عابد کا نام دیا گیا جو روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان کے نام پر تھا ۔ فرحان نے جوڑوں کے لیے جو اُصول تیار کیے ، وہ سارے پروگرام کے تابع تھے اورپروگرام اِس طرح تیار کیا گیا کہ اصولوں کے ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کر کے خودبخود مخصوص قسم کا جوڑ استعمال ہوتا ہے ۔ اِس ابتدائی سافٹ ویر UCS کے بعد اُس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور اِس کے یکے بعد دیگرے دو  ورژن پیش کئے گئے ۔ ’ سیاست ‘ کے بعد روزنامہ منصف اور پھررہنمائے دکن اور دوسرے اخبارات نے بھی اِس طریقہ کتابت کو اپنایا  اورحیدرآباد سے نکلنے والے تمام اہم اخبارات کے علاوہ بمبئی کے انقلاب ، اُردو ٹائمز اور بنگلور کے سالار نے بھی اِسی طریقے پر کتابت شروع کر دی ۔ 

فرحان کے مطابق اُن سے ایک غلطی ہوئی ۔وہ یہ کہ اُنھوں نے اپنے سسٹم کو شروع میں Desktop آپریٹرزسے دور رکھا ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے سسٹم کے گاہک اخبارات تھے اور اُن کی ضروریات کو مد نظر رکھنا ضروری تھا ۔ لیکن جب چھوٹے کمپیوٹر عام ہوئے اورفرحان کا تیار کردہ سسٹم ایک فلاپی پر محفوظ کرنے کے قابل ہوا تو Desk  top آپریٹروں کی ایک بڑی تعداد تیار ہو گئی جس نے اِس نظام کے ذریعے کتابوں کی کتابت کا کام شروع کیا اور یوں روزگار کے حصول کا ایک نیا ذریعہ وجود میں آیا۔ Microsoft نے DOS کے بعد ونڈو کا نظام تیار کیا اور Windows 1 .بازار میں آیا تو فرحان نے اپنے سسٹم کو ونڈو پرمنتقل کیا ۔ لیکن ونڈو کا پہلا  ورژن فرحان کی ضرورتوں کے مطابق نہ تھا ، اِس لیے کام آگے نہ بڑھ سکا ۔ جب Windows  3.1 متعارف کیا کیا تو یہ نظام فرحان کے لیے زیادہ کار آمد تھا ۔ چنانچہ 3.1 Windows    کو استعمال کر کے فرحان نے Page Composer یا صفحہ ساز تیار کیا ۔ یہ ورژن محدود تعداد میں فروخت ہوئے اور خامیوں کی وجہ سے زیادہ مقبول نہ ہو سکے ۔ پاکستان میں انعام علوی نے اِس صفحہ ساز کو گلوبل کے نام سے جاری کیا پھر کسی وجہ سے فرحان اور انعام کے درمیان ربط ٹوٹ گیا اور گلوبل کا کام وہیں تک محدود رہا۔ جب مائکرو سافٹ نے Windows  95 جاری کیا تو یہ نظام فرحان کی ضرورتوں کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ فرحان نے پیج کمپوزر یا صفحہ ساز کا نیا ورژن مارکٹ میں پیش کیا جو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ 

یہاں ایک بات بہت اہم ہے ۔ Windows پر محیط اِس نظام یا اِس جیسے دوسرے سسٹم تک رسائی ہر ایک کے لیے ممکن نہ تھی ، کیوں کہ اُن میں ایک خاص قسم کا  لاکنگ سسٹم شامل کر دیا گیا تھا تاکہ اُس کی نقل یا کاپی کرنا ممکن نہ ہو سکے ۔ جس کمپیوٹر کے لیے اِس نظام کو خریدا جاتا ،  اُس کے ساتھ ایک لاک Dongal بھی ہوتا ہے ۔ چونکہ پیج کمپوزر ، کاتب ،  شاہکار، گلوبل وغیرہ تجارتی بنیادوں پر کام کر رہے تھے ، اِس لیے یہ اقدام ضروری بھی تھا ۔ تبھی فرحان نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ۔ اُنھوں نے ایک محدود نظام تیار کیا ، اور اُسے مفت تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ اِس طرح جس کسی کے پاس کمپیوٹر ہو اور اُس پر Windows  95 موجود ہو ، وہ اِس نظام کو بغیر کسی ادائگی کے حاصل کر کے استعمال کر سکتا ہے ۔ اُنھوں نے اِس محدودنظام کو   Share ware کا نام دیا اور اُسے انٹر نٹ پر پیش کر دیا ، جہاں سے دنیا بھر میں کوئی بھی اِس نظام کو اپنے کمپیوٹرمیں شامل کر سکتا ہے یا پھر فرحان سے راست ربط پیدا کر کے مفت حاصل کر سکتا ہے ۔ اُس کے پیچھے فرحان کی ایک دلچسپ منطق ہے ۔ اُن کا خیال ہے کہ جس طرح ایک تخلیقی کام پرسب کا حق ہوتا ہے بالکل اُسی طرح سافٹ ویر پر بھی سب کا حق ہونا چاہیے ۔ یہ نظریہ دراصل کمیپوٹر پروگرامنگ کے باوا آدم Dollbute  کا ہے جس نے یہ تحریک چلائی تھی کہ کمپیوٹر پروگرامنگ بھی  ایک تخلیقی کام ہے اور اُس تک رسائی کا حق ہر ایک کو ہونا چاہیے ۔ 

سچ بات تو یہ ہے کہ فرحان نے جو کام کیا ، وہ اگر کسی اور زبان کے لیے کیا گیا ہوتا تو اُس کے لیے دولت کے انبار لگ گئے ہوتے لیکن اُن کے پیش نظر دولت کا حصول نہ تھا بلکہ وہ عوامی سطح پر اپنے سسٹم کو پہنچانا چاہتے تھے ۔ البتہ صفحہ ساز یا   Composer Page کا جو تجارتی ورژن ہے اور زیادہ سہولتوں کا حامل ہے ، اُس کی قیمت غالبا چودہ ہزار روپیہ رکھی گئی ہے۔ 

94-95 ء میں کچھ اورپیکیج منظر عام پرآئے ۔ ’کاتب ‘نام کا پیکیج پاکستان میں تیار کیا گیا یہ بھی Charecter base  ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہ مل سکیں لیکن جس نہج  سے یہ پروگرام کام کرتا ہے ، اُس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ انعام علوی ہی کے پروگرام پر انحصار کرتا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ’ کاتب ‘ کی بھی مفت تقسیم عمل میں آرہی ہے ۔ ’ شاہکار ‘ کے نام سے پیش کیا جانے والا سافٹ ویر بھی نوری نستعلیق ہی کی ایک شکل ہے  اور یہ بھی Ligature base   ہے یعنی اشکال پر انحصار کرتا ہے ۔ 

تین چار سال قبل میں نے فرحان سے کی بورڈ کے ضمن میں گفتگوکی تھی اور یہ تجویز رکھی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں رائج نسخ اور نستعلیق کے پروگراموں میں استعمال کئے جانے والے کی بورڈ یا کلیدی تختہ کو ایک اسٹینڈرڈ پر لانے کے لیے کوشش کی جائے ، بالکل ویسے ہی جیسے انگریزی کا کلیدی تختہ ہر جگہ ایک ہی ہے چاہے وہ کسی کمپنی کا تیار کردہ ہو ۔ یہی طریقہ نسخ اور نستعلیق کے لیے بھی رائج کرنا چاہیے ۔ مگر Window 95   میں موجود سہولت کی وجہ سے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہر استعمال کرنے والا اپنی پسند اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنا کی بورڈ ترتیب دے لے اور کسی بھی حرف کے لیے اپنے حساب سے کسی Key کو نامزد کر لے ۔ 

ہندوستان  ہی میں ایک اور اہم Package  منظر عام پر آیا جس کا نام ان پیج ہے ۔  یہ پیکیج دہلی کے دو نوجوانوں آر پی سنگھ اور وجئے کرشن گپتا نے اپنے اُردو جاننے والے دوستوں کی مدد سے تیار کیا ۔ یہ دونوں خود اُردو سے واقف نہیں لیکن کمپیوٹر پر مہارت اور اُردو سے ذاتی دلچسپی نے انھیں اِس پیکیج کی تیاری کی طرف متوجہ کیا ۔ Inpage میں وہی ٹکنک استعمال کی گئی ہے جو نوری نستعلیق کی بنیاد ہے یعنی اشکال پرمنبی نظام ۔ اِس نظام پر ۹۳ ء ہی میں کام شروع ہو چکا تھا جب Window3.1 کا دور دورہ تھا  لیکن Windows 95  کے آنے کے بعد ہی ۹۵ء میں اِس نظام کومارکٹ میں پیش کیا گیا ۔ اشکال یا Ligature  پر مبنی اِس نظام میں اب تک اٹھارہ ہزار اشکال شامل کی گئیں ہیں اور تقریباً ہر ممکنہ لفظ کی شکل اِس نظام میں موجود ہے ۔ تازہ ترین اطلاع کے بموجب اب اِس میں بائیس ہزار اشکال موجود ہیں ۔ اِس نظام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں اُردو کے ساتھ عربی ، فارسی ، کشمیری ، سندھی ، ہزارگی اورخوردش فیچر بھی شامل ہیں اورساتھ ہی ساتھ دوسری کسی بھی ہندوستانی یا بیرونی زبان کا خط اِس میں شامل کیا جاسکتا ہے، جس کے لیے اِس زبان کے فونٹ حاصل کر کے کمپیوٹر میں داخل کرنے ہوں گے اورجو فونٹ ونڈوز کی لائبریری میں موجودہیں ، اُن کو راست حاصل کر کے اُردو کے ساتھ بیک وقت استعمال کرنا ممکن ہے ۔ ان پیج کے پہلے ورژن میں کچھ خامیاں تھیں جو نئے  ورژن میں دور کر لی گئی ہیں۔کورل ڈرا کی سہولت بھی اُس کا ایک جزو ہے ، اِس لیے اِس پیکیج کے ذریعہ تزئین کا کام بھی بڑی خوبصورتی سے کیا جا سکتا ہے ۔اِس میں ریاضی کی مختلف علامات کے لیے ایک ایکویشن ایڈیٹر بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ریاضی پر مبنی متن کا کام بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔  علاوہ ازیں اِس میں Color Seperation  کا کام بھی ممکن ہو گیا یعنی رنگوں کو علیحدہ کر کے کلر آفسٹ کا کام بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ان پیج میں ایک اہم سہولت یہ بھی ہے کہ لفظ کو آگے پیچھے یا اوپر نیچے ہٹایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے تحریر میں کتابت کا حسن پیدا ہو جاتا ہے ۔ 

اس پیکیج میں بھی تجارتی بنیادوں پر تحفظ کے لیے Dongal کا لاک  موجود ہے ، اس لیے اس کو کاپی کرنا یا نقل کرنا ممکن نہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان پیج کا پرانا ورژن 1.1 اب بغیر لاک کے بھی استعمال ہو رہا ہے اور لوگ اُس کی نقلیں حاصل کر رہے ہیں ۔

انٹر نیٹ کے عام ہوجانے سے ترسیل کی دنیا میں بڑی سہولتیں پیدا  ہو گئی ہیں ۔   email    اب عام ہو گیا ہے اور سستا بھی ہے لیکن اُس کی وجہ سے اُردو کو ایک خطرہ بھی در پیش تھا، وہ یہ کہ   email  پر جو پیغام بھیجے جاتے ہیں ، وہ رومن اُردو میں ہوتے ہیں ۔ اِس بات کو ذہن میں رکھ کرحیدرآباد کے اخبار سیاست نے اُردو میں email کا نظام  روشناس کرایا ہے ۔ یعنی اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ اپنا پیغام اُردو رسم الخط میں emailکر سکیں ۔ اِس میں البتہ ایک لزوم یہ ہے کہ پیغام بھیجنے والے اور پیغام وصول کرنے والے کمپیوٹر پر اُردو کا ٹکسٹ ایڈیٹر ہونا ضروری ہے ۔ 

اُردو کمپوزنگ یا کتابت کے اِن کمپیوٹر پر مبنی نظاموں کی وجہ سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کاتبوں کی روزی روٹی پر اثر پڑا ہوگا ۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے ۔ کاتب اور خصوصاً ایک فن کار کاتب کی ضرورت تو ہر زمانے میں رہے گی ۔ بڑے بیز ، سائن بورڈ اور اس طرح کے دوسرے کاموں کے لیے تو کمپیوٹرفی الحال کار آمد نہیں ہے ۔ تزئینی خط میں نئی نئی اختراعات کے مواقع اب بھی ہیں اور اگر کاتب ہاتھ سے کتابت کرنے کی بجائے کمپیوٹر سے کتابت کرنے لگے تو شاید وہ کاتب نہ کہلائے بلکہ اُسے ڈسک ٹاپ آپریٹر کہا جائے لیکن روزگار تو یہاں بھی ہے ۔ 

سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آج سے بیس سال پہلے کتابت کے جو مسائل تھے اور اُردو کے مصنف کو جن دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا تھا ، وہ اب باقی نہیں رہے ۔ اب تو یہ معاملہ ہے کہ پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب کی کمپوزنگ  دو تین دن میں کر لی جا سکتی ہے بلکہ اگر دو تین کمپیوٹر پر کام ہو تو ایک ہی دن کافی ہے ۔ 

ایک الزام کمپیوٹر پر یہ بھی ہے کہ یہ غلطیاں بہت کرتا ہے ۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ۔ جب کبھی کوئی غلطی نظر آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹر کی غلطی ہے اور یہ صورت حال ہر جگہ ہے ۔ اگر میٹرک یا انٹر میڈیٹ کے نتائج میں غلطی پکڑی جائے تو الزام کمپیوٹر کے سر جاتا ہے جب کہ ٹائپ میں کی گئی غلطی کو ہم ٹائپ رائٹر کی غلطی نہیں کہتے ، ٹائپسٹ کی غلطی کہتے ہیں ۔ ایسی ہی صورت کمپیوٹر کی بھی ہے ۔ در اصل غلطی کمپیوٹر کی نہیں ہوتی ۔ یا تو آپریٹر غلطی کرتا ہے یا پھر پروگرام میں ہی کسی طرح کی خامی ہوتی ہے ۔ البتہ ایک دشواری یہ ضرور پیش آتی ہے کہ جب متن کو ایڈٹ کیا جائے یا اُس میں رد و اضافہ کیا جائے تو اِس عمل کے بعد سارے متن پر اثر پڑتا ہے اور سارا متن اسی حساب سے آگے یا پیچھے ہوجاتا ہے ۔ تصحیح کرنے والا سوچتا ہے کہ جو کچھ اس نے تصحیح کی تھی وہ تو ٹھیک کرلی گئی ، لہٰذا کام مکمل ہے لیکن کبھی کبھی سطر کے آخیر میں آنے کی وجہ سے نام یا اضافت سے بنی ہوئی تراکیب کا آدھا حصہ دوسری سطر میں چلا جاتا ہے اور اگر ایک بار پھر نظرِ ثانی کر لی جائے تو یہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ 

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب اخبارات ، کتابیں رسالے سبھی کچھ کمپیوٹر کے ذریعے اشاعت پذیر ہو رہے ہیں اور اب کسی کو یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اِس رسم الخط کو بدل دینا چاہئیے کیوں کہ کمپیوٹر کی وجہ سے اُردو کی بقا کی نئی راہیں نکل آئی ہیں ۔ اب یہ زبان عالمی سطح پر الکٹرونک میڈیا کے توسط سے گھرگھرپہنچ رہی ہے ۔ کیا یہ اکیسویں صدی کے اُردو والوں کے لیے بیسویں صدی کا ایک سب سے بڑا اور اہم تحفہ نہیں !

ooOoo



Rahmat Yousufzai

Former Professor & Head, Dept. of Urdu,

University of Hyderabad.

Res: Almoin, 12-2-790/A/25, Dilshadnagar,

Mehdipatnam, Hyderabad-500028

Mob: 0409848093057

Email: rahmat.yousufzai@gmail.com



جمعہ، 13 اکتوبر، 2023

سمت میں میرا مضمون دیوانِ غالب کی پہلی غزل : تفہیم و تجزیہ

http://samt.bazmeurdu.net/article/%d8%af%db%8c%d9%88%d8%a7%d9%86%d9%90-%d8%ba%d8%a7%d9%84%d8%a8-%da%a9%db%8c-%d9%be%db%81%d9%84%db%8c-%d8%ba%d8%b2%d9%84-%d8%aa%d9%81%db%81%db%8c%d9%85-%d9%88-%d8%aa%d8%ac%d8%b2%db%8c%db%81-%db%94/

دیوانِ غالب کی پہلی غزل : تفہیم و تجزیہ

یہ مضمون میری اجازت کے بغیر سمت میں شائع کیا گیا ہے۔ 

مشینی ترجمہ پر میرا لکچر

 https://fb.watch/nE2zlsy61J/

اوپر دیا ہوا ویڈیو لنک فیس بک پر یو جی سی۔نیٹ؍ جے آر ایف صفحے پر ملا ہے۔ یہ لکچر چوبیس ستمبر ۲۰۱۹ کو شعبۂ اردو، سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر میں دیا گیا تھا، جسے بغیر اجازت کسی نے بنایا اور یہاں پوسٹ کیا ہے۔ اسے دیکھ کر افسوس ہوا مگر سرقہ رپورٹ کرنے کا اختیار کتابِ رخ پر دستیاب ہی نہیں ہے کہ شکایت درج کی جا سکے۔  بندہ اسے ادبی بد دیانتی تسلیم کرتا ہے۔ خدارا ایسا نہ کیجیے۔ پوسٹ کرنے سے پہلے اجازت لینا مناسب نہ لگے تو اطلاع ہی دے دیجیے۔ 

۱۳،۱۰،۲۰۲۳


جمعرات، 12 اکتوبر، 2023

بے غرض محسن

 بے غرض محسن

پریم چند

 

ساون کا مہینہ تھا، ریوتی رانی نے پاؤں میں مہندی رچائی، مانگ چوٹی سنواری۔ اور تب اپنی بوڑھی ساس سے جاکر بولی، ’’امّاں جی آج میں میلہ دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

ریوتی پنڈت چنتا من کی بیوی تھی۔ پنڈت جی نے سرسوتی کی پوجا میں زیادہ نفع نہ دیکھ کر لکشمی دیوی کی مجاوری کرنی شروع کی تھی۔ لین دین کا کاروبار کرتے تھے۔ مگراور مہاجنوں کے خلاف خاص خاص حالتوں کے سوا پچیس فیصدی سے زیادہ سودلینا مناسب نہ سمجھتے تھے۔
ریوتی کی ساس ایک بچّے کو گود میں لیے کھٹولے پر بیٹھی تھیں۔ بہو کی بات سن کر بولیں۔
’’
بھیگ جاؤ گی تو بچّے کو زکام ہوجائے گا۔‘‘

ریوتی۔ نہیں امّاں مجھے دیر نہ لگے گی ابھی چلی آؤں گی۔
ریوتی کے دو بچّے تھے ایک لڑکا دوسری لڑکی۔ لڑکی ابھی گود میں تھی اور لڑکا ہیرا من ساتویں سال میں تھا۔ ریوتی نے اسے اچھے اچھے کپڑے پہنائے، نظر بد سے بچانے کے لیے ماتھے اور گالوں پر کاجل کے ٹیکے لگادئیے۔ گڑیاں پیٹنے کے لیے ایک خوش رنگ چھڑی دے دی اور ہمجولیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔
کیرت ساگر کے کنارے عورتوں کا بڑا جمگھٹ لگا تھا۔ نیلگوں گھٹائیں چھائی تھیں۔ عورتیں سولہ سنگار کیے ساگر کے پر فضا میدان میں ساون کی رم جھم برکھاکی رت لوٹ رہی تھیں۔ شاخوں میں جھولے پڑے تھے۔ کوئی جھولا جھولتی، کوئی گانا گاتی، کوئی ساگر کے کنارے بیٹھی لہروں سے کھیلتی تھی۔ ٹھنڈی خوش گوار ہوا، پانی کی ہلکی پھوار، پہاڑیوں کی نکھری ہوئی ہریاول، لہروں کے دلفریب جھٹکولے موسم کو توبہ شکن بنائے ہوئے تھے۔
آج گڑیوں کی بدائی ہے، گڑیا اپنی سسرال جائیں گی، کنواری لڑکیاں اپنے ہاتھ میں مہندی رچائے گڑیوں کو گہنے کپڑے سے سجائے انھیں بداکرنے آئی ہیں۔ انھیں پانی میں بہاتی ہیں اور چہک چہک کر ساون کے گیت گاتی ہیں۔ مگردامن عافیت سے نکلتے ہی ان نازو نعمت میں پلی ہوئی گڑیوں پر چاروں طرف سے چھڑیوں اور لکڑیوں کی بوچھار ہونے لگتی ہے۔
ریوتی یہ سیر دیکھ رہی تھی اور ہیرا من ساگر کے زینوں پر اور لڑکیوں کے ساتھ گڑیاں پیٹنے میں مصروف تھا۔ زینوں پر کائی لگی ہوئی تھی۔ دفعتاً اس کا پاؤں، پھسلا تو پانی میں جا پڑا، ریوتی چیخ مارکر دوڑی اور سر پیٹنے لگی۔ دم کے دم میں وہاں مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہوگیا۔ مگر یہ کسی کی انسانیت تقاضہ نہ کرتی تھی کہ پانی میں جاکر ممکن ہوتو بچّے کی جان بچائے، سنوارے ہوئے گیسو نہ بکھر جائیں گے۔ دھلی ہوئی دھوتی بھیگ جائے گی کتنے ہی مردوں کے دلوں میں یہ مردانہ خیال آرہے تھے۔ دس منٹ گذرگئے مگر کوئی ہمّت باندھتا نظر نہ آیا۔ غریب ریوتی پچھاڑیں کھارہی تھی۔ ناگاہ ایک آدمی اپنے گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ یہ اژدہام دیکھ کر اتر پڑا اور ایک تماشائی سے پوچھا، ’’یہ کیسی بھیڑ ہے؟‘‘
تماشائی نے جواب دیا، ’’ایک لڑکا ڈوب گیا ہے۔‘‘
مسافر۔ کہاں؟
تماشائی۔ جہاں وہ عورت رورہی ہے۔
مسافر نے فوراً اپنے گاڑھے کی مرزئی اتاری اور دھوتی کس کر پانی میں کود پڑا۔ چاروں طرف سنّاٹا چھاگیا۔ لوگ متحیر تھے کہ کون شخص ہے اس نے پہلا غوطہ لگایا لڑکے کی ٹوپی ملی دوسرا غوطہ لگایا تو اس کی چھڑی ملی اور تیسرے غوطہ کے بعد جب وہ اوپر آیا تو لڑکا اس کے گود میں تھا۔ تماشائیوں نے واہ واہ کا نعرہ پر شور بلند کیا۔ ماں نے دوڑ کر بچّے کو لپٹا لیا۔ اسی اثنا میں پنڈت چنتا من کے اور کئی عزیز آ پہنچے اورلڑکے کو ہوش میں لانے کی فکر کرنے لگے۔ آدھ گھنٹہ میں لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ لوگوں کی جان میں جان آئی۔ ڈاکڑ صاحب نے کہا کہ اگر لڑکا دو منٹ بھی پانی میں اوررہتا تو بچنا غیر ممکن تھا۔ مگر جب لوگ اپنے گم نام محسن کو ڈھونڈنے لگے تو اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ چاروں طرف آدمی دوڑائے، سارا میلہ چھان مارا، مگر نظر نہ آیا۔
بیس سال گذر گئے پنڈت چنتا من کا کاروبار روزبروز بڑھتا گیا اس دوران میں اس کی ماں نے ساتوں جاتر آئیں کیں اور مریں تو ان کے نام پر ٹھاکر دوار تیار ہوا۔ ریوتی بہو سے ساس بنی، لین دین اور کھاتہ ہیرامن کے ہاتھ آیا۔ ہیرا من اب ایک وجیہہ لحیم و شحیم نوجوان تھا۔ نہایت خلیق، نیک مزاج کبھی کبھی باپ سے چھپاکر غریب آسامیوں کو قرض حسنہ دیا کرتا تھا۔ چنتامن نے کئی بار اس گناہ کے لیے بیٹے کو آنکھیں دکھائی تھیں اور الگ کردینے کی دھمکی دی تھی۔ ہیرامن نے ایک بار سنسکرت پاٹ شالہ کے لیے پچاس روپے چندہ دیا، پنڈت جی اس پر ایسے برہم ہوئے، کہ دو دن تک کھانا نہیں کھایا۔ ایسے ایسے ناگوار واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ انھیں وجوہ سے ہیرا من کی طبیعت باپ سے کچھ کھچی رہتی تھی۔ مگر اس کی ساری شرارتیں ہمیشہ ریوتی کی سازش سے ہوا کرتی تھیں۔ جب کسی قصبے کی غریب ودھوائیں یا زمینداروں کے ستائے ہوئے آسامیوں کی عورتیں ریوتی کے پاس آکر ہیرامن کو آنچل پھیلا پھیلا کر دعائیں دینے لگتیں تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ مجھ سے زیادہ بھاگو ان اور میرے بیٹے سے زیادہ فرشتہ صفت آدمی دنیا میں نہ ہوگا۔ تب اسے بے اختیار وہ دن یادآجاتا جب ہیرامن کیرت ساگر میں ڈوب گیا تھا۔ اور اس آدمی کی تصویر اس کی نگاہوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی جس نے اس کے لال کو ڈوبنے سے بچایا تھا اس کے عمیق دل سے دعا نکلتی اور ایسا جی چاہتا تھا کہ اسے دیکھ پاتی تو اس کے پاؤں پر گر پڑتی، اب اسے کامل یقین ہوگیا تھا کہ انسان نہ تھا بلکہ کوئی دیوتا تھا، وہ اب اسی کھٹولے پر بیٹھی ہوئی جس پر اس کی ساس بیٹھتی تھی اپنے دونوں پوتوں کو کھلایا کرتی تھی۔
آج ہیرا من کی ستائیسویں سا لگرہ تھی۔ ریوتی کے لیے یہ دن سال بھر کے دنوں میں سب سے زیادہ مبارک تھا، آج اس کا دست کرم خوب فیا ضی دکھاتا تھا اور یہی ایک بے جا صرف تھا جس میں پنڈت چنتا من بھی اس کے شریک ہوجاتے تھے۔ آج کے دن وہ بہت خوش ہوتی اور بہت روتی اور آج اپنے گم نام محسن کے لیے اس کے دل سے جو دعائیں نکلتیں وہ دل و دماغ کے اعلیٰ ترین جذبات میں رنگی ہوئی ہوتی تھیں۔ اسی کی بدولت تو آج مجھے یہ دن اور سکھ دکھ دیکھنا میسّر ہوا ہے۔
ایک دن ہیرا من نے آکر ریوتی سے کہا، ’’امّاں سری پور نیلام پر چڑھا ہوا ہے، کہو تو میں بھی دام لگاؤں۔‘‘
ریوتی۔ سولھوانہ ہے؟
ہیرا من۔ سولھوانہ اچھا گاؤں ہے نہ بڑا نہ چھوٹا۔ یہاں سے دس کوس ہے۔ بیس ہزار تک بولی بڑھ چکی ہے سودوسومیں ختم ہوجائے گا۔
ریوتی۔ اپنے دادا سے تو پوچھو۔
ہیرامن۔ ان کے ساتھ دو گھنٹے تک سر مغزن کرنے کی کسے فرصت ہے۔
ہیرامن اب گھر کا مختارِ کل ہوگیا تھا اور چنتامن کی ایک نہ چلنے پاتی تھی۔ وہ غریب اب عینک لگائے ایک گدّے پر بیٹھے اپنا وقت کھانسنے میں صرف کرتے تھے۔
دوسرے دن ہیرا من کے نام پر سری پور ختم ہوگیا۔ مہاجن سے زمیندار ہوئے اپنے منیب اور دو چپراسیوں کو لے کر گاؤں کی سیر کر نے کو چلے۔ سری پور والوں کو خبر ہوئی۔ نئے زمیندار کی پہلی آمد تھی، گھر گھر نذرانے دینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
پانچویں دن شام کے وقت ہیرا من گاؤں میں داخل ہوئے، دہی اور چاول کا تلک لگایا گیا۔ اور تین سواسامی پہر رات تک ہاتھ باندھے ہوئے ان کی خدمت میں کھڑے رہے۔ سویرے مختارِ عام نے اسامیوں کا تعارف کرانا شروع کیا۔ جو اسامی زمیندار کے سامنے آتا۔ وہ اپنی بساط کے مطابق ایک دو روپے ان کے پاؤں پر رکھ دیتا۔ دوپہر ہوتے ہوئے وہاں پانچ سو روپے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
ہیرا من کو پہلی بار زمینداری کا مزہ ملا۔ پہلی بار ثروت اور طاقت کا نشہ محسوس ہوا۔ سب نشوں سے زیادہ تیز قاتل ثروت کا نشہ ہے جب اسامیوں کی فہرست ختم ہوگئی تو مختار سے بولے، ’’اور کوئی اسامی باقی تو نہیں ہے۔‘‘
مختار: ’’ہاں مہاراج ابھی ایک اسامی اور ہے‘‘ تخت سنگھ۔۔
ہیرامن: وہ کیوں نہیں آیا۔
مختار: ذرا مست ہے۔
ہیرا من: میں اس کی مستی اتاردوں گا، ذرا اسے کوئی بلالائے۔
تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتا آیا اور ڈنڈوت کرکے زمین پر بیٹھ گیا نہ نذرانہ نیاز اس کی یہ گستاخی دیکھ کر ہیرامن کو بخار چڑھ آیا۔ کڑک کر بولے، ’’ابھی کسی زمیندار سے پالا نہیں پڑا ہے ایک ایک کی ہیکڑی بھلادوں گا۔‘‘
تخت سنگھ نے ہیرا من کی طرف غور سے دیکھ کر جواب دیا، ’’میرے سامنے بیس زمیندار آئے اور چلے گئے۔ مگرابھی کسی نے اس طرح کی گھڑکی نہیں دی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے لاٹھی اٹھائی اور اپنے گھر چلا آیا۔ بوڑھی ٹھکرائن نے پوچھا۔ دیکھا زمیندار کو کیسے آدمی ہیں؟‘‘
تخت سنگھ۔ اچھے آدمی ہیں۔ میں انھیں پہچان گیا۔
ٹھکرائن۔ کیا تم سے پہلے کی ملاقات ہے،؟
تخت سنگھ، ’’میری ان کی بیس برس کی جان پہچان ہے گڑیوں کے میلے والی بات یاد ہے نا؟‘‘
اس دن سے تخت سنگھ پھر ہیرامن کے پاس نہ آیا۔
چھ مہینے کے بعد ریوتی کو بھی سری پور دیکھنے کا شوق ہوا، اور وہ اس کے بہو اور بچّے سب سری پور آئے گاؤں کی سب عورتیں ان سے ملنے آئیں ان میں بوڑھی ٹھکرائن بھی تھی۔ اس کی بات چیت، سلیقہ اور تمیز دیکھ کر ریوتی دنگ رہ گئی۔ جب وہ چلنے لگی توریوتی نے کہا۔ ٹھکرائن کبھی کبھی آیا کرو نا تم سے مل کر طبیعت بہت خوش ہوئی۔
اس طرح دونوں عورتوں میں رفتہ رفتہ میل ہوگیا۔ یہاں تو یہ کیفیت تھی اور ہیرا من اپنے مختار عام کے مغالطے میں آکر تخت سنگھ کو بے دخل کرنے کی بندشیں سوچ رہا تھا۔
جیٹھ کی پورن ماشی آئی ہیرامن کی سالگرہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ریوتی چھلنی میں میدہ چھان رہی تھی کہ بوڑھی ٹھکرائن آئی ریوتی نے مسکراکر کہا’’ ٹھکرائن ہمارے یہاں کل تمھارا نیوتا ہے۔
ٹھکرائن۔ تمھارا نیوتا سر آنکھوں پر، کون سی برس گانٹھ ہے؟
ریوتی۔ انتیسویں۔
ٹھکرائن۔ نارائن کر ے ابھی ایسے ایسے سو دن اور تمھیں دیکھنے نصیب ہوں۔
ریوتی۔ ٹھکرائن تمھاری زبان مبارک ہو بڑے بڑے جنترمنتر کیے ہیں تب تم لوگوں کی دعا ہے سے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ یہ ساتویں ہی سال میں تھے کہ ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔ گڑیوں کو میلہ دیکھنے گئی تھی یہ پانی میں گر پڑے۔ بارے میں ایک مہاتما نے ان کی جان بچائی۔ ان کی جان انھیں کی دی ہوئی ہے۔ بہت تلاش کرایا۔ ان کا پتہ نہ چلا۔ ہر برس گانٹھ پر ان کے نام سے سو روپے نکال رکھتی ہوں۔ دو ہزار سے کچھ اوپر ہوگیاہے۔ بچّے کی نیت ہے کہ ان کے نام سے سری پور میں ایک مندر بنوادیں سچ مانوٹھکرائن۔ ایک بار ان کے درشن ہوجاتے تو زندگی سپھل ہوجاتی، جی کی ہوس نکال لیتے۔
ریوتی جب خاموش ہوئی تو ٹھکرائن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
دوسرے دن ایک طرف ہیرا من کی سالگرہ کا جشن تھا اور دوسری طرف تخت سنگھ کے کھیت نیلام ہورہے تھے۔
ٹھکرائن بولی۔ میں ریوتی رانی کے پاس جاکر دھائی مچاتی ہوں۔
تخت سنگھ نے جواب دیا۔ میرے جیتے جی نہیں۔
اساڑھ کا مہینہ آیا۔ میگھراج نے اپنی جاں بخش فیاضی دکھائی۔ سری پور کے کسان اپنے اپنے کھیت جوتنے چلے۔ تخت سنگھ کی حسرت ناک اور آرزومند نگاہیں ان کے ساتھ ساتھ جاتیں یہاں تک زمین انھیں اپنے دامن میں چھپالیتی۔
تخت سنگھ کے پاس ایک گائے تھی وہ اب دن کے دن اسے چرایا کرتا تھا۔ اس کی زندگی کا اب بھی ایک سہاراتھا، اس کے اپلے اور دودھ بیچ کر گذرا ن کرتا، کبھی کبھی فاقہ کرنے پڑجاتے۔ یہ سب مصیبتیں اس نے جھیلیں مگر اپنی بے نوائی کا رونا رونے کے لیے ایک دن بھی ہیرامن کے پاس نہ گیا۔ ہیرا من اسے زیر کرنا چاہا تھا مگر خود زیر ہوگیا، جیتنے پر بھی اسے ہار ہوئی، پر انے لوہے کو اپنی کمینہ ضد کی آنچ سے نہ جھکا سکا۔
ایک دن ریوتی نے کہا، ’’بیٹا تم نے غریب کو ستایا ہے اچھا نہ کیا۔‘‘
ہیرا من نے تیز ہوکر جواب دیا، ’’وہ غریب نہیں ہے اس کا گھمنڈ توڑوں گا۔‘‘
ثروت کے نشے میں زمیندار وہ چیز توڑنے کی فکر میں تھا جس کا وجود ہی نہیں تھا جیسے بے سمجھ بچّہ اپنی پر چھائیں سے لڑنے لگتا ہے۔
سال بھر تخت سنگھ نے جوں توں کرکے کاٹا۔ پھر برسات آئی اس کا گھر چھایا نہ گیا تھا۔ کئی دن تک موسلا دھار مینھ برسا، تو مکان کا ایک حصّہ گر پڑا۔ گائے وہاں بندھی ہوئی تھی، دب کر مر گئی۔ تخت سنگھ کے بھی سخت چوٹ آئی۔ اسی دن سے اسے بخار آنا شروع ہوگیا۔ دواداروکون کرتا، روزی کا سہارا تھا وہ بھی ٹوٹا، ظالم بے درد مصیبت نے کچل ڈالا۔ سارا مکان پانی سے بھرا ہوا گھر میں اناج کا ایک دانہ نہیں۔ اندھیرے میں پڑا ہواکراہ رہا تھا کہ ریوتی اس کے گھر گئی تخت سنگھ نے آنکھیں کھول دیں اور پوچھا’’کون ہے؟‘‘
ٹھکرائن۔ ریوتی رانی ہیں۔
تخت سنگھ۔ میرے دھن بھاگ مجھ پر بڑی دیا کی۔
ریوتی نے شرمندہ ہوکر کہا۔ ٹھکرائن ایشور جانتا ہے میں اپنے بیٹے سے حیران ہوں۔ تمھیں جو تکلیف ہو مجھ سے کہو۔ تمھارے اوپر ایسی آفت پڑگئی اور ہم سے خبر تک نہ کی۔
یہ کہہ کر ریوتی نے روپوں کی ایک چھوٹی سی پوٹلی ٹھکرائن کے سامنے رکھ دی روپوں کی جھنکار سن کر تخت سنگھ اٹھ بیٹھا۔ بولا، ’’رانی ہم اس کے بھوکے نہیں ہیں۔ مرتے دم گنہگار نہ کرو۔‘‘
دوسرے دن ہیرا من بھی اپنے ہوا خواہوں کو لیے ہوئے ادھر سے جا نکلا، گرا ہوا مکان دیکھ کر مسکرایا۔ اس کے دل نے کہا۔ آخر میں نے اس کا گھمنڈ توڑ دیا۔ مکان کے اندر جاکر بولا’’ ٹھاکر اب کیا حال ہے؟‘‘
ٹھاکر نے آہستہ سے کہا’’ سب ایشور کی دیا ہے، آپ کیسے بھول پڑے۔
ہیرا من کو دوسری بار زک ملی۔ اس کی یہ آرزو کہ تخت سنگھ میرے پاؤں کو آنکھوں سے چومے، اب بھی پوری نہ ہوئی۔ اسی رات کوغریب آزاد منش ایماندار بے غرض ٹھاکر اس دنیا سے ر خصت ہوگیا۔
بوڑھی ٹھکرائن اب دنیا میں اکیلی تھی، کوئی اس کے غم کاشریک اور اس کے مرنے پر آنسو بہانے والا نہ تھا۔ بے نوائی اور بے مائیگی نے غم کی آنچ اور بھی تیز کردی تھی، سامان فراغت موت کے زخم کو گوبھر نہ سکیں مگر مرہم کا کام ضرور کرتے ہیں۔
فکر معاش بری بلا ہے ٹھکرائن اب کھیت اور چراگاہ سے گوبر چن لاتی اور اپلے بنا کر بیچتی۔ اسے لاٹھی ٹیکتے ہوئے کھیوں اور چراگاہوں کوجاتے اورگوبر کا ٹوکراسر پر رکھ کر بوجھ سے ہانپتے ہوئے آتے دیکھنا سخت دردناک تھا۔ یہاں تک ہیرامن کو بھی اس پر ترس آگیا۔ ایک روز انھوں نے آٹا چاول تھالیوں میں رکھ کر اس کے پاس بھیجا۔ ریوتی خود لے کر گئی مگر بوڑھی ٹھکرائن آنکھوں میں آنسوبھر کر بولی، ’’ریوتی جب تک آنکھوں سے سوجھتا ہے اور ہاتھ پاؤں چلتے ہیں مجھے اور مرنے والے کو گنہگار نہ کرو۔
اس دن سے ہیرا من کو پھر اس کے ساتھ عملی ہمدردی کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ایک دن ریوتی نے ٹھکرائن سے اپلے مول لیے گاؤں میں پیسے کے تین اپلے ملتے تھے۔ اس نے چاہا کہ اس سے بیس ہی اپلے لوں اس دن سے ٹھکرائن نے اس کے یہاں اپلے لانا بند کردیا۔
ایسی دیویاں دنیا میں کتنی ہیں کیا وہ اتنا نہیں جانتی تھی کہ ایک رازسربستہ زبان پر لاکر اپنی جاں کا ہیوں کا خاتمہ کرسکتی ہوں مگر پھر وہ احسان کا بدلہ نہ ہو جائے گا۔ مثل مشہور ہے نیکی کر اور دریا میں ڈال۔ شاید اس کے دل میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ میں نے ریوتی پر کوئی احسان کیا ہے۔
یہ وضع دار آن پر مرنے والی عورت شوہر کے مرنے کے بعد تین سال تک زندہ رہی۔ یہ زمانہ اس نے جس تکلیف سے کاٹا اسے یاد کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کئی کئی دن فاقے سے گذر جاتے، کبھی گوبر نہ ملتا، کبھی کوئی اپلے چرالے جاتا۔ ایشور کی مرضی کسی کا گھر بھرا ہوا ہے کھانے والے نہیں کوئی یوں رو رو کر زندگی کاٹتا ہے۔
بڑھیا نے یہ سب دکھ جھیلا مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا۔
ہیرا من کی تیسویں سالگرہ آئی ڈھول کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایک طرف گھی کی پوریاں پک رہی تھیں۔ دوسری طرف تیل کی، گھی کی موٹے مغز برہمنوں کے لیے۔ تیل کی غریب فاقہ کش نیچوں کے لیے۔
یکایک ایک عورت نے ریوتی سے آکر کہا، ’’ٹھکرائن جانے کیسی ہوئی جاتی ہیں۔ تمھیں بلارہی ہیں۔‘‘
ریوتی نے دل میں کہا۔ ایشور آج تو خیریت سے کاٹنا کہیں بڑھیا نہ مر رہی ہو۔ یہ سوچ کر بڑھیا کے پاس نہ گئی۔ ہیرامن نے جب دیکھا امّاں نہیں جانا چاہتیں تو خود چلا۔ ٹھکرائن پر اسے کچھ دنوں سے رحم آنے لگاتھا۔ مگر ریوتی مکان کے دروازے تک اسے منع کرنے آئی۔ یہ رحم دل نیک مزاج شریف ریوتی تھی۔
ہیرا من ٹھکرائن کے مکان پر پہنچا تو وہاں بالکل سنّاٹا چھایا ہواتھا۔ بوڑھی عورت کا چہرہ زرد تھا اور جانکنی کی حالت طاری تھی۔ ہیرامن نے زور سے کہا، ’’ٹھکرائن میں ہوں ہیر امن۔‘‘ ٹھکرائن نے آنکھیں کھولیں اور اشارے سے اپنے سر نزدیک لانے کو کہا پھر رک رک کر بولی میرے سر ہانے پٹاری میں ٹھاکر کی ہڈّیاں رکھی ہوئی ہیں میرے سہاگ کا سیندور بھی وہیں ہے۔ یہ دونوں پر اگ راج بھیج دینا۔
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ ہیرا من نے پٹاری کھولی، تو دونوں چیزیں بہ حفا ظت رکھی ہوئی ہیں۔ ایک پوٹلی میں دس روپے بھی رکھے ہوئے ملے۔ یہ شاید جانے والے کا زادِراہ تھا۔
رات کو ٹھکرائن کی تکلیفوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
اسی رات کو ریوتی نے خواب میں دیکھا کہ ساون کا میلہ ہے گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، میں کیرت ساگر کے کنارے کھڑی ہوں اتنے میں ہیرا من پانی میں پھسل پڑا۔ میں چھاتی پیٹ پیٹ کر رونے لگی۔
دفعتاً ایک بوڑھا آدمی پانی میں کود پڑا اور ہیرا من کو نکال لایا۔
ریوتی اس کے پاؤں پر گر پڑی اور بولی۔
’’
آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا۔
سری پور میں رہتا ہوں۔ میرا نام تخت سنگھ ہے۔
سری پور اب بھی ہیرا من کے قبضے میں ہے۔ مگر اب اس کی رونق دو چند ہوگئی ہے۔ وہاں جاؤ تو دور سے شوالے کا سنہری کلس دکھائی دینے لگتا ہے۔ جس جگہ تخت کا مکان تھا وہاں یہ شوالہ بنا ہوا ہے اس کے سامنے ایک پختہ کنواں اور پختہ دھرم شالہ ہے۔ مسافر یہاں ٹھہرتے ہیں اور تخت سنگھ کا گن گاتے ہیں۔
یہ شوالہ اور دھرم شالہ دونوں اس کے نام سے مشہور ہیں۔

How to use voice typing in Urdu